ہند یورپی لسانی خاندان اور اس کی شاخیں

ہند یورپی لسانی خاندان اور اس کی شاخیں: دنیا کی زبانوں کی تاریخ میں اگر کسی لسانی خاندان کو سب سے زیادہ اہم، بااثر اور وسیع کہا جائے تو وہ “ہند یورپی خاندان” ہے۔ اس خاندان کی زبانیں نہ صرف تعداد میں بہت زیادہ ہیں بلکہ ان کا دائرہ اثر بھی دنیا کے مختلف براعظموں میں پھیلا ہوا ہے۔ یورپ، ایشیا، امریکہ، آسٹریلیا اور دیگر خطوں میں کروڑوں افراد روزمرہ زندگی میں ان زبانوں کو بولتے، لکھتے اور سمجھتے ہیں۔

ہند یورپی زبانیں علمی، ادبی، سائنسی، فکری اور تہذیبی لحاظ سے ایک بھرپور ورثہ رکھتی ہیں اور کئی بڑی تہذیبیں انہی زبانوں کے دامن میں پروان چڑھی ہیں۔ ان زبانوں نے دنیا کے فکری ارتقاء، تعلیم، سیاست اور ادب میں گہرا اثر ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لسانیات کے ماہرین کے نزدیک ہند یورپی خاندان محض زبانوں کا مجموعہ نہیں بلکہ انسانی تہذیب و تاریخ کی ایک مکمل داستان ہے۔

اس مضمون میں ہم ہند یورپی لسانی خاندان کی ابتدا، تاریخی پس منظر، اہم شاخوں اور اس کی عالمی اہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

ہند یورپی لسانی خاندان

زبانوں کے معروف عالمی خاندانوں میں ہند یورپی خاندان کو ایک نمایاں اور مرکزی مقام حاصل ہے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے اکثر اسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس خاندان کی زبانوں میں ادبی، علمی، فکری اور سائنسی سرمایہ جس قدر وسیع ہے، وہ کسی اور لسانی خاندان میں دکھائی نہیں دیتا۔

ہند یورپی لسانی خاندان اور اس کی اہم شاخیں
ہند یورپی لسانی خاندان اور اس کی اہم شاخیں

ہند یورپی خاندان کی زبانیں دنیا کے مختلف خطوں میں بولی جاتی ہیں۔ ان کے بولنے والے افراد یورپ، ایران، پاکستان، افغانستان، شمالی ہند، سری لنکا، نیپال، بھوٹان، امریکہ (شمالی و جنوبی)، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جزائر غرب الہند میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان زبانوں کا تعلق مختلف نسلوں، مذاہب، ثقافتوں اور سیاسی قومیتوں سے ہے، اور ان سے وابستہ اقوام دنیا کی سیاست، معیشت، علم و ادب، تہذیب و ثقافت میں اہم مقام کی حامل ہیں۔

سر ولیم جونز کی اس عظیم دریافت کہ سنسکرت اور یورپی کلاسیکی زبانوں کا ماخذ مشترک ہے، نے لسانیات کی دنیا میں ایک نیا باب رقم کیا۔ اس دریافت کے بعد جرمن ماہرینِ لسانیات نے ان زبانوں کا تقابلی مطالعہ کیا اور لسانی قوانین و اصول مرتب کیے، جن سے تاریخی لسانیات کے میدان کو بہت ترقی ملی۔

ابتدا میں اس خاندان کو ہند جرمن (Indo-Germanic) کا نام دیا گیا تاکہ ہندوستان اور جرمنی، دونوں خطوں کی نمائندگی ہو سکے۔ کچھ اہلِ علم نے اسے انڈو کیلٹک (Indo-Celtic) بھی کہا، کیوں کہ آئرلینڈ کی زبان آئرش، کیلٹک گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔ تاہم، آخرکار اسے ہند یورپی (Indo-European) کے نام سے پکارا جانے لگا۔

جرمن ماہرین کو یہ نام تبدیلی پسند نہ آئی۔ ان کا خیال تھا کہ “ہند یورپی” کہنا دراصل جرمن اثرات کو کمزور کرنے کی کوشش ہے، کیونکہ یہ نام فرانسیسی ماہرین نے تجویز کیا تھاجن کا جرمنی سے تاریخی اختلاف رہا ہے۔ چنانچہ آج بھی جرمن ماہرینِ لسانیات اس خاندان کو “ہند جرمن” ہی کہتے ہیں، جبکہ دنیا کے باقی ممالک میں اسے “ہند یورپی خاندان” کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہند یورپی زبانوں کے خاندان کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے۔ اسے سنسکرتی یورپی، سرمئین، سامی و حامی کے مقابلے میں جافی (Japhetic)، ہند کلاسیکی، ہند جرمنی (Indo-Germanic) اور آریائی جیسے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم، عالمی سطح پر “ہند یورپی” (Indo-European) کی اصطلاح کو سب سے زیادہ رواج حاصل ہوا اور یہی اصطلاح آج ایک مسلمہ شناخت بن چکی ہے۔

ہند یورپی زبانوں کا خاندان لسانیات کے علمی دائرے میں نہایت اہم تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس خاندان کی بعض شاخیں ایسی بھی ہیں جن کا تعلق قبل مسیح کے ادوار سے ہے، جن میں بطورِ خاص ہند ایرانی، یونانی اور اٹالک (Italic)زبانیں قابلِ ذکر ہیں۔

قدیم ایرانی زبان کی ایک اہم ذیلی شاخ “ایرانی” کہلاتی ہے، جس کی سب سے قدیم دستاویز “اوستا” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اسی طرح ہند آریائی زبان کی سب سے قدیم شکل “رِگ وید سمہتا” ہے، جسے ہند یورپی لسانیات کی بنیاد میں ایک کلیدی مقام حاصل ہے۔

ماہرینِ لسانیات کے مطابق رِگ وید کے منتر اور بھجن 1600 تا 2000 قبل مسیح کے درمیانی دور میں تخلیق پائے۔ ممتاز ماہرِ لسانیات ڈاکٹر سیتی کمار چٹرجی کی رائے میں یہ تخلیقات ممکنہ طور پر 1200 قبل مسیح کے آس پاس معرضِ وجود میں آئیں۔ اُس زمانے میں آریا قوم تحریر کے فن سے ناواقف تھی، اس لیے ان مذہبی کلام کو یادداشت کے ذریعے نسل در نسل منتقل کیا گیا۔ یہ منتر اور بھجن سینہ بہ سینہ روایت کے ذریعے محفوظ رہے، یہاں تک کہ وقت گزرنے کے بعد انھیں ضبطِ تحریر میں لایا گیا۔

یہ تمام حقائق نہ صرف ہند یورپی زبانوں کی قدامت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان کے علمی و تہذیبی تسلسل کی بھی گواہی دیتے ہیں، جو ہزاروں برسوں پر محیط ایک شاندار تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔

ہند یورپی خاندان کی شاخیں

  1. کینٹم گروہ (Centum Group)
  2. ستم گروہ (Satam Group)

ہند یورپی زبانوں کا خاندان نہ صرف دنیا کے بڑے لسانی خاندانوں میں سے ایک ہے بلکہ اس کی شاخوں کی تقسیم اور ترقی بھی لسانیات کے ماہرین کے لیے ایک اہم موضوع رہی ہے۔ 1870ء میں معروف ماہرِ لسانیات ایسکولی (Askoli) نے اس خاندان کو دو بڑی شاخوں میں تقسیم کیا۔ اس تقسیم کی بنیاد قدیم ہند یورپی زبانوں میں موجود بعض تالوئی (palatal) آوازیں تھیں جنہیں (k, kh, g, gh) جیسی آوازوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں، فان بریڈلی نے انہی اصولوں کو بنیاد بنا کر “کینٹم” (Centum) اور “ستم” (Satam) کے دو بڑے گروہ متعین کیے۔ یہ تقسیم اس بنیاد پر کی گئی کہ کچھ زبانوں میں یہ تالوئی آوازیں “ک” میں تبدیل ہو گئیں، جبکہ کچھ زبانوں میں وہ “س” یا “ش” میں ڈھل گئیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ “کنٹم” لاطینی زبان میں “سو” (100) کو کہا جاتا ہے، جبکہ “ستم” فارسی اور اوستا میں اسی عدد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان دو گروہوں کو یہ نام دیے گئے۔

کینٹم گروہ (Centum Group)

اس گروہ میں شامل زبانوں میں تالوئی آوازیں “ک” کے طور پر محفوظ رہیں۔ اس گروہ کی نمایاں زبانیں درج ذیل ہیں:

  1. حتی (Hittite)
  2. طُخاری (Tocharian)
  3. یونانی (Greek)
  4. اطالوی/لاطینی (Italic/Latin)
  5. ایرین (Illyrian)
  6. ٹیوٹانک (Germanic)
  7. کیلٹک (Celtic)

ستم گروہ (Satam Group)

اس گروہ کی زبانوں میں تالوئی آوازیں “س” یا “ش” میں بدل گئیں۔ اس گروہ کی اہم زبانیں درج ذیل ہیں:

  1. البانوی (Albanian)
  2. بالٹک (Baltic)
  3. سلافی (Slavic)
  4. آرمینیائی (Armenian)
  5. ہند ایرانی (Indo-Iranian)

Book Cover

ہند یورپی خاندان اور اسکی اہم شاخیں

Rating: ★★★★☆
  • Author: Ravinotes.com

  • File Size: 592.81 KB

  • Format: PDF

  • Notes: Urdu

  • Price: Free

Leave a Comment